﴿ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ ﴾ ’’یقینا ہم اچھے قبول کرنے والے ہیں۔‘‘ یہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ﴿نَادَانَا﴾ اور ﴿ الْمُجِيبُونَ ﴾ میں اپنے لیے جمع کا لفظ لائے ہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے بادشاہ اپنے کلام میں کہتا ہے کہ ہم نے ایسے کیا اور ہم نے یہ حکم دیا وغیر ذٰلک۔ اللہ تعالیٰ مالک الملوک ہے، اس لیے اسی اسلوب میں فرمایا ہے کہ اس نے ہمیں پکارا، ہم اچھے قبول کرنے والے ہیں۔ گویا جب کوئی کسی کو پکارتا اور بلاتا ہے تو وہ اپنی حیثیت کے مطابق ہی اس کو جواب دیتا ہے۔ مگر ہم قادر مطلق ہیں، ہر ایک کی پکار سنتے ہیں، ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہر وعدہ وفا کرتے ہیں۔ جو معاملہ اور صفت اللہ تعالیٰ اور انسانوں کے درمیان مشترک ہو، وہاں عموماً اللہ تعالیٰ کے وصف کے ساتھ ایسا لفظ یا اشارہ ہوتا ہے جس سے خالق و مخلوق کے مابین فرق واضح ہو جاتا ہے، جیسے یہاں ﴿ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ ﴾ فرمایا ہے۔ یا جیسے نوح علیہ السلام نے خود ہی فرمایا تھا: ﴿ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴾ [ھود: ۴۵] ’’اورتُو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘ اسی معنی میں ﴿أَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴾، ﴿ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ ﴾، ﴿ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ﴾، ﴿ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ ﴾، ﴿ خَيْرُ الْوَارِثِينَ ﴾، ﴿ خَيْرُ الْغَافِرِينَ ﴾، ﴿ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴾، ﴿ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ﴾ اور ﴿ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ﴾ ہے۔ ﴿ وَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ ﴾ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا بہتر طور پر یوں قبول ہوئی کہ’’ ہم نے اسے اور اُس کے گھر والوں کو نجات دی۔‘‘ یہاں ’’ان کے گھروالوں‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں، جنھوں نے دین میں ان کی تابع داری کی۔ ’’أہل الرجل‘‘ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ہم نسب یا ہم دین ہوں یا کسی صنعت یا مکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں۔ ’’ أہل الإسلام‘‘ کے معنی ’’مسلمان قوم‘‘ ہیں۔ |