ان کی عمر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ ابن عباس سے ہے کہ ۴۰ سال میں انھیں نبوت ملی۔ ۹۵۰ سال قوم کو دعوت دیتے رہے اور طوفان کے بعد ۶۰ سال زندہ رہے، یوں ان کی کل عمر ۱۰۵۰ سال ہوئی۔[1] مگر ابن کثیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے ان کی عمر ۱۷۸۰ سال ذکر کی ہے۔[2] عکرمہ فرماتے ہیں کہ ان کی عمر ۱۷۰۰ سال تھی۔ عون بن ابی شداد فرماتے ہیں کہ ۳۵۰ سال کے تھے، جب نبوت ملی۔ ۹۵۰ سال قوم میں رہے اور طوفان کے بعد ۳۵۰ سال زندہ رہے۔ یوں ان کی عمر ۱۶۵۰ سال بنتی ہے۔[3] قرآنِ مجید میں ان کی دعوت و تبلیغ کی مدت ۹۵۰ سال ہے۔ [العنکبوت: ۱۴] آپ علیہ السلام رات دن اپنا فریضۂ دعوت اَدا کرتے رہے۔ علانیہ اور سرِعام اجتماعی طور پر بھی دعوت دی اور پوری خیر خواہی اور رازداری سے فرداً فرداً بھی دعوت دی۔ مگر ان کے تمرّد و تکبر میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کے خبردار کردینے پر قوم سے بالکل مایوس ہو گئے اور ان کے طعن و ملامت اور مخالفت سے تنگ آگئے تو اُنھوں نے بالآخر رب ذوالجلال کو پکارا، ان کی اس پکار کا ذکر سورۃ الانبیاء میں یوں ہے: ﴿ وَنُوحًا إِذْ نَادَى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ ﴾ [الأنبیاء: ۷۶] ’’اور نوح کو بھی جب اس نے اس سے پہلے پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کر لی، پھر اُسے اور اُس کے گھر والوں کو بہت بڑی گھبراہٹ سے بچا لیا۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کو پکارا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا: |