حضرت نوح علیہ السلام پہلے رسول ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا، ان کی قوم اصنام و طاغوت پرستی میں مبتلا ہوگئی اور انھوں نے توحید کے بجائے کفر و شرک کی گمراہی کو قبول کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے نوح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ حدیث شفاعت میں ہے، جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اولادِ آدم قیامت کے روز پہلے آدم علیہ السلام کے پاس، پھر حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جائے گی اور ان سے عرض کرے گی: ’’یا نوح! أنت أول الرسل إلی أہل الأرض، وسماک اللّٰہ عبداً شکورا‘‘[1] ’’اے نوح! آپ اہل ارض کی طرف پہلے رسول ہیں اور اللہ نے آپ کا نام عبداً شکوراً رکھا ہے۔‘‘ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی ولادت حضرت آدم علیہ السلام سے ایک سو چھبیس (۱۲۶) برس بعد ہوئی ہے۔ مگر حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں، آپ علیہ السلام سے کلام کیا گیا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کیا ہے) ۔‘‘ اس نے کہا: حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان کتنا عرصہ تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دس قرن، اور ۳۱۵ رسول ہوئے ہیں۔‘‘[2] بعض روایات میں انبیا علیہم السلام کا شمار ایک لاکھ ۲۴ ہزار بھی آیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے مابین دس قرن تھے اور وہ سب اسلام پر تھے۔[3] |