Maktaba Wahhabi

196 - 438
کو گمراہ کریں گے اور کسی نافرمان، سخت منکر کے سوا کسی کو نہیں جنیں گے۔‘‘ سورۃ الشعراء میں اسی پکار کو اِن الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے: ﴿ قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ (117) فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَنْ مَعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ [الشعراء: ۱۱۸، ۱۱۷] ’’اس نے کہا: اے میرے رب ! بے شک میری قوم نے مجھے جھٹلادیا۔ پس تُو میرے درمیان اور اُن کے درمیان فیصلہ کر دے کھلا فیصلہ اور مجھے اور میرے ساتھ جو ایمان والے ہیں، انھیں بچا لے۔‘‘ قوم کی طرف سے یہ مایوسی و نااُمیدی محض ان کا اپنا فیصلہ نہ تھا۔ قوم ایمان لائے یا نہ لائے نبی نے اپنا فریضۂ تبلیغ ادا کرنا ہوتا ہے۔ قوم کی ہٹ دھرمی اور کفر و شرک پر قائم رہنے کی اطلاع اللہ تبارک و تعالیٰ نے کر دی تھی، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأُوحِيَ إِلَى نُوحٍ أَنَّهُ لَنْ يُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ إِلَّا مَنْ قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴾ [ھود: ۳۶] ’’اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ تیری قوم میں سے کوئی ہر گز ایمان نہیں لائے گا مگر جو اِیمان لا چکا، پس تُو اس پر غمگین نہ ہو جو وہ کرتے رہے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اطلاع کے بعد حضرت نوح علیہ السلام قوم سے مایوس ہو گئے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے فریاد کی۔ اس فریاد کے ایک مقام پر اَلفاظ یہ بھی ہیں: ﴿ فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ ﴾ [القمر: ۱۰] ’’تو اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک میں مغلوب ہوں، سو تُو بدلہ لے۔‘‘
Flag Counter