﴿ وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ (75) وَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ (76) وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ (77) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۷۷۔ ۷۵] ’’اور بلاشبہہ یقینا نوح نے ہمیں پکارا تو یقینا ہم اچھے قبول کرنے والے ہیں۔ اور ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دی۔ اور ہم نے اس کی اولاد ہی کو باقی رہنے والے بنا دیا۔‘‘ پہلی آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھیجے جانے اور ان کی نافرمانی کے نتیجے میں ان کی اُمتوں کے انجام کا اجمالاً ذکر تھا، اب یہاں سے بقدر ضرورت اسی کی تفصیل ہے، چنانچہ سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اُمت کا ذکر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ ﴾ ’’اور بلاشبہہ ہمیں نوح نے پکارا۔‘‘ نادی ینادي، النداء سے ہے، جس کے معنی پکارنا، فریاد کرنا، آواز دینا او ر بلانا ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی اس ندا سے یہاں مراد ان کی وہ فریاد ہے جو اُنھوں نے اپنی قوم کو طویل مدت تک دعوت دینے کے بعد قوم سے مایوس ہو کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے کی تھی، جس کا ذکر سورۂ نوح میں یوں ہوا ہے: ﴿ وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا (26) إِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ﴾[نوح: ۲۷، ۲۶] ’’اور نوح نے کہا: اے میرے رب ! زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔ بے شک تُو اگر انھیں چھوڑے رکھے گا تو وہ تیرے بندوں |