کیا۔ مگر ان بدنصیبوں نے گمراہی کو ہی گلے لگائے رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک قوم کی طرف ڈرانے والا بھیجا، جیسے فرمایا: ﴿ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ﴾ [فاطر: ۲۴] ’’اور کوئی اُمت نہیں مگر اس میں ایک ڈرانے والا گزرا ہے۔‘‘ اور بسا اوقات دو یا دو سے زائد رسول بھی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے، جیسے پہلے سورہِ یٰسٓ میں بیان ہوا ہے کہ ایک قوم کی طرف تین رسولوں کو بھیجا گیا۔ فرعون کی طرف بھی موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو بھیجا گیا تھا۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’الاولین‘‘ کے مقابلے میں ’’المنذرین‘‘ جمع کا صیغہ لایا گیا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام ’’منذر‘‘ ہی نہیں ’’مبشر‘‘ بھی ہوتے ہیں، جیسے فرمایا: ﴿ رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ﴾ [النساء: ۱۶۵] ’’ایسے رسول جو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے، تاکہ لوگوں کے پاس رسولوں کے بعد اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہ جائے۔‘‘ لیکن یہاں موقع کی مناسبت سے گمراہوں کے تناظر میں ’’منذرین‘‘ کا ذکر ہوا ہے کہ ان کو گمراہی کے انجام سے خبردار کرنے والے ہم نے بھیجے۔ ﴿ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِينَ ﴾ ’’سو دیکھ ان ڈرائے جانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔‘‘ یعنی ہمارے ’’منذِرین‘‘ کے سمجھانے بجھانے اور ڈرانے دھمکانے سے جب اُنھوں نے کوئی سبق نہ سیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیں ان کا انجام کیا ہوا۔ ان آیات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا مقصود ہے کہ جیسے یہ آج آپ کی تکذیب کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی ہمارے رسولوں کی تکذیب ہوئی ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ پھر اُن مکذبین کا انجام کیا ہوا، یہی انجام ان کا بھی ہونے والا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم |