اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ [سبأ: ۲۰] ’’اور بلاشبہہ یقینا ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچا کر دکھایا تو مومنوں کے ایک گروہ کے سوا وہ سب اس کے پیچھے چل پڑے۔‘‘ اسی سورت میں فرمایا ہے: ﴿ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ﴾ [سبأ: ۱۳] ’’اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے شکر گزار ہیں۔‘‘ بلکہ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں میں اکثر کا حال یہ بیان فرمایا گیاہے: ﴿ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ﴾ [یوسف: ۱۰۶] ’’اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے مگر اس حال میں کہ وہ شریک بنانے والے ہوتے ہیں۔‘‘ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب وسنت کے مقابلے میں اکثریت کوئی وزن نہیں رکھتی۔ حق کے مقابلے میں باطل، توحید کے مقابلے میں شرک اور ایمان کے مقابلے میں کفر کی ہمیشہ سے کثرت رہی ہے۔ یہاں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ پہلی اُمتوں میں بھی اکثر گمراہ تھے۔ آج بھی اگر یہی صورت حال ہے تو اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے، صبر کرنا چاہیے اور اپنی دعوت کو جاری رکھنا چاہیے۔ فاصبر کما صبر أولوا العزم من الرسل۔ ﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُنْذِرِينَ ﴾ ’’اور بلاشبہہ یقینا ہم نے ان میں کئی ڈرانے والے بھیجے۔‘‘ پہلی قوموں کی اکثریت گمراہ ہوئی تو یوں نہیں کہ انھیں ڈرانے والا اور خبردار کرنے والا کوئی نہیں تھا، بلکہ انھیں ایک نہیں کئی ڈرانے والوں نے خبردار |