’’جماعت کو لازم پکڑو، اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔‘‘ پھر ایک روز میں نے ان سے سنا، فرماتے تھے: ایسے حکمران ہوں گے جو نمازوں کو ان کے وقت سے مؤخر کر کے پڑھیں گے تو تم نماز وقت پر پڑھو، وہ تمھارے لیے فرض ہوگی اور ان حکمرانوں کے ساتھ بھی پڑھو، وہ تمھارے لیے نفل ہو گی۔ میں نے کہا: ’’یا أصحاب محمد! ما أدري ما تحدثون‘‘ ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ! مجھے سمجھ نہیں آتی، تم کیا بیان کرتے ہو۔ انھوں نے فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے عرض کی: آپ مجھے جماعت کے ساتھ رہنے کا حکم دیتے ہیں، پھر فرماتے ہیں کہ اکیلے نماز پڑھ لو، یہ تمھارے فرض ہوں گے اور پھر جماعت کے ساتھ پڑھو، یہ تمھارے نفل ہوں گے۔ انھوں نے فرمایا: اے عمرو بن میمون! میں تو تمھیں یہاں کا سب سے زیادہ سمجھ دار سمجھتا تھا، تمھیں معلوم ہے کہ جماعت کیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ انھوں نے فرمایا: ’’إن جمھور الجماعۃ الذین فارقوا الجماعۃ، الجماعۃ ما وافق الحق وإن کنت وحدک‘‘[1] ’’اکثر جماعت وہ ہیں، جو جماعت سے علاحدہ ہوگئے ہیں، جماعت وہ ہے جو حق کے ساتھ ہے، اگرچہ تو اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ حق پر مبنی یہی بات حافظ ابن قیم نے بھی نقل کی ہے۔[2] ان سے قبل یہی قصہ امام ابن عساکر[3] اور امام اللالکائی[4]نے بھی ذکر کیا ہے۔ یعنی اگر جماعت حق کا ساتھ چھوڑ دے تم اکیلے ہی حق پر ڈٹے رہو، تم ہی |