معیار کثرت و قلت نہیں، بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول کی پیروی ہے۔ محض اکثریت کی پیروی راہِ ہدایت نہیں بلکہ گمراہی ہے۔ حتی کہ فرمایا گیا ہے: ﴿ وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ﴾ [الأنعام: ۱۱۶] ’’اور اگر توُ ان لوگوں میں سے اکثر کا کہا مانے جو زمین میں ہیں تو وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ [المائدۃ: ۱۰۰] ’’کہہ دے: ناپاک اور پاک برابر نہیں، خواہ ناپاک کی کثرت تجھے تعجب میں ڈالے، پس اللہ سے ڈرو اے عقل والو! تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ ہر فیصلہ دلیل و برہان پر ہونا چاہیے نہ کہ عوام الناس کی اکثریت دیکھ کر۔ امام ابو شامہ فرماتے ہیں کہ یہ جو ’’جماعت‘‘ کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم ہے تو اس سے حق کے ساتھ وابستہ رہنا اور حق کی پیروی مراد ہے اگرچہ حق کے ساتھ تمسک کرنے والوں کی تعداد قلیل ہو اور مخالفت کرنے والے بکثرت ہوں۔ اس لیے کہ حق وہ ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں پہلی جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تھی، ان کے بعد اہلِ باطل کی کثرت باعثِ التفات نہیں۔ اس کے بعد اُنھوں نے عمرو بن میمون الازدی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ میں پہلے حضرت معاذ کی صحبت میں رہا، وہ فوت ہوگئے تو میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے ان سے سنا فرماتے تھے: ’’علیکم بالجماعۃ فإن ید اللہ علی الجماعۃ‘‘ |