﴿ وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِينَ (71) وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُنْذِرِينَ (72) فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِينَ (73) إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (74) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۷۴۔ ۷۱] ’’اور بلاشبہہ یقینا ان سے پہلے اگلے لوگوں میں سے زیادہ تر گمراہ ہو گئے۔ اور بلاشبہہ یقینا ہم نے ان میں کئی ڈرانے والے بھیجے۔ سو دیکھ ان ڈرائے جانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟ مگر اللہ کے خالص کیے ہوئے بندے۔‘‘ پہلی آیات میں مشرکین کا انجام بیان کرتے ہوئے ان کے شرک و کفر کا سبب بھی بیان ہوا ہے۔ اب ان آیات میں پہلی اُمتوں کی گمراہی اور ان کے انجام کی طرف اشارہ ہے جس میں ایک طرف تو کفارِ مکہ کو تنبیہ ہے کہ تم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کر رہے ہو تمھارا انجام بھی وہی ہوگا جو پہلے مکذبین کا ہوا تھا۔ اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس میں تسلی کا پہلو بھی ہے کہ یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی جا رہی ہے یہ کوئی نیا معاملہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی انبیا علیہم السلام کی تکذیب کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے دل برداشتہ نہ ہوں، صبر کریں اور اپنے دعوتی مشن کو جاری رکھیں۔ ﴿ أَكْثَرُ الْأَوَّلِينَ ﴾ پہلی اُمتوں کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ ان کے اکثر لوگ گمراہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوت ِتوحید دی تو اہلِ مکہ کی اکثریت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تسلیم کرنے سے انکارکر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو بتلایا گیا ہے کہ تمھارے مد مقابل ہی کثرت میں نہیں بلکہ پہلی اُمتوں میں بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ ان کے اکثر گمراہ تھے۔ اس لیے ہدایت و گمراہی اور حق و باطل کا |