یعنی ایک طرف ہو جہاں جہنمی وقفے وقفے سے کھانے پینے کے لیے لائے جاتے ہوں، پھر انھیں قعر جہنم میں لوٹا دیا جاتا ہو۔ جیسا کہ ایک جگہ بیان ہوا ہے: ﴿ هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ (43) يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيمٍ آنٍ ﴾ [الرحمن: ۴۴، ۴۳] ’’یہی ہے وہ جہنم جسے مجرم لوگ جھٹلاتے تھے۔ وہ اس کے درمیان اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکر کاٹتے رہیں گے۔‘‘ یہ آنا جانا بھی عام حالت میں نہیں ہوگا، بلکہ مجرموں کی طرح صورتِ حال یوں ہوگی: ﴿ إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ (71) فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ ﴾ [المؤمن: ۷۲، ۷۱] ’’جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور زنجیریں، گھسیٹے جا رہے ہوں گے۔ کھولتے پانی میں، پھر آگ میں جھونکے جائیں گے۔‘‘ اللہم إنا نعوذبک من عذاب جہنم۔ یہ اہلِ جنت کے مقابلے میں اہل دوزخ کا حال ہوگا۔ جنت میں تو ہر آن نئی شان نئی بان ہوگی، بیٹھے بٹھائے غلمان سب کچھ حاضر خدمت کریں گے اِدھر جہنم میں ہر سو عذاب اور ذلت سے سابقہ پڑے گا۔ کھانے کو زقوم پینے کو کھولتا ہوا پیپ ملا پانی اور وہ بھی کھلانے پلانے کے لیے اُنھیں مجرموں کی طرح ہانک کر لے جایا جائے گا۔اور اطمینان و آرام کا وہاں کوئی تصور نہیں ہوگا۔ ﴿ إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ ضَالِّينَ ﴾ اس میں ان کے مجرم ہونے کا سبب بیان ہوا ہے اور اُس علت کا بیان ہے جس کے باعث وہ جہنم کا ایندھن بنے ہیں کہ |