﴿ لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ (6) لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِنْ جُوعٍ ﴾ [الغاشیۃ: ۷، ۶] ’’ان کے لیے کھانا نہیں ہوگا مگر ضریع سے، جو نہ موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے کچھ فائدہ دے گا۔‘‘ ’’ضریع‘‘ سے مراد بعض یہی زقوم لیتے ہیں۔ بعض نے اس سے ایک خاص قسم کی گھاس مراد لی ہے جو بدبودار، زہریلی اور کانٹے دار ہوگی۔ مقصد یہ ہے کہ جہنمیوں کو کھانے کے لائق کوئی غذا نہیں ملے گی بلکہ ’’ضریع‘‘ جیسی تکلیف دہ اور بدذائقہ اشیاء ہی کھانے کو ملیں گی، خواہ وہ زقوم ہویا خاص قسم کی گھاس یا کوئی اور چیز۔ چنانچہ ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے: ﴿ فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ (35) وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ (36) لَا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَاطِئُونَ ﴾ [الحاقۃ: ۳۷۔ ۳۵] ’’سو آج یہاں نہ اس کا کوئی دلی دوست ہے اور نہ اس کے لیے زخموں کے دھووَن کے سوا کوئی کھانا ہے، جسے گناہ گاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔‘‘ جس طرح جنت میں انواع واقسام کے خوش ذائقہ کھانے اورپھل ہوں گے اسی طرح جہنم میں مختلف بد مزہ کھانے ہوں گے۔ زقوم ہوگا، اس سے بدک گئے تو غسلین ملے گی، اس سے بچیں گے تو خاردار گھاس کھانی پڑے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ کھانے کی یہ مختلف اشیاء مختلف درجات کے اعتبار سے ہوں۔ اللھم إنا نعوذ بک من عذاب جہنم۔ دوسری صورت یہ کہ جہنم کے فرشتے جبراً جہنمیوں کو اسے کھانے پر مجبور کریں گے، تاکہ ان کے عذاب میں اضافہ ہو۔ |