حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ گھروں میں اگر دُم کٹا دو سفید دھاری والا سانپ ہوتو اسے ماردینا چاہیے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مارنے کا ہی حکم فرمایا ہے: (( اقتلوا الحیات واقتلوا ذا الطفیتین والأبتر فانھما یطمسان البصر ویستسقطان الحبل )) [1] ’’سانپوں کو مار ڈالو اور دو سفید دھاری والے اور دُم کٹے سانپ کو زندہ نہ چھوڑو، یہ آنکھ کی بنائی ضائع کردیتے ہیں اور حمل والی عورتوں کا حمل گرادیتے ہیں۔‘‘ اور ’’صحیح البخاري‘‘ ہی کی ایک روایت میں ہے: (( لاتقتلوا الجنان الا کل ابترذی طفیتین )) [2] ’’ سانپوں کو قتل نہ کرو مگر جو دم کٹے دو سفید دھاری والے ہیں انھیں قتل کرو۔‘‘[3] ایک تیسرا قول یہ بھی ہے کہ شیاطین کے سروں سے مراد وہ ڈراؤنے درخت ہیں جو مکہ مکرمہ اور یمن کے راستے پر پائے جاتے ہیں اور عرب انھیں شیاطین کے سر کہتے تھے۔ مگر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ پہلا قول اقویٰ واولیٰ ہے اور اسی کو امام رازی رحمہ اللہ نے حق کہا ہے۔ ﴿ فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا ﴾ جہنمی اس زقوم کو کھا کر اپنا پیٹ بھریں گے۔ امام رازی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کی دو صورتیں ہوں گی۔ ایک صورت یہ کہ جہنمیوں کو شدید بھوک لگے گی تو بھوک دور کرنے کے لیے زقوم کے کڑوے اور بدمزہ درخت سے اپنا پیٹ بھرنے پر مجبور ہوں گے کہ اور کوئی اچھی چیز تو وہاں کھانے کی ہوگی نہیں جو کچھ بھی ہوگا بدمزہ ہوگا۔ جیسے ایک اور مقام پر فرمایا: |