محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کے معنی درخت خرما کا غلاف کے ہیں، جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے۔ یوں طلع کے معنی خوشہ، شگوفہ اور گابھا کے ہیں کہ وہ بھی درخت سے نکلتا ہے۔ زقوم کے شگوفوں اور خوشوں کو شیاطین کے سروں سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں اس کی بدصورتی کی طرف اشارہ ہے۔ جب کسی بدصورت اور بھدی شکل کو دیکھا جاتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے یہ تو چڑیل یا ڈائن ہے اسی طرح خوب صورت شکل کو دیکھ کر کہا جاتا ہے کہ وہ تو پری یا فرشتہ ہے۔ مصر کی عورتوں نے بھی حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر کہا تھا: ﴿ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ ﴾ [یوسف: ۳۱] ’’اللہ کی پناہ یہ کوئی آدمی نہیں ہے،یہ نہیں ہے مگر کوئی نہایت معزز فرشتہ۔‘‘ زقوم کے خوشوں کو شیاطین کے سروں سے تشبیہ گو خیالی ہے کہ شیطان کو تو کسی نے نہیں دیکھا مگر ذہنوں میں شیطان کا ایک خوف ناک تصور پایا جاتا ہے اور اس کی طرف کسی چیز کے انتساب سے اس کی بدصورتی اور کراہت کا خیال خود بہ خود ذہن میں آجاتا ہے۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’شیاطین‘‘ سے مراد سانپ ہیں۔ سانپ کو اس کی ایذارسانی کی وجہ سے شیطان کہا جاتا ہے۔ کوبرا سانپ جب اپنا پھن اٹھاتا ہے تو بڑا خوف ناک نظر آتا ہے۔ شیطان سانپ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں دیکھے جانے والے سانپ کو مارنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ انھیں مارنے سے پہلے تین بار آگاہ کرو کہ اگر مومن جن ہے تو چلا جائے۔ اگر وہ نہ جائے تو اسے مار ڈالو۔[1] |