Maktaba Wahhabi

175 - 438
آگ پر حکم خالقِ آگ کا ہے۔ دُنیا میں بھی نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آگ کو ان کے لیے ٹھنڈا کر دیا اور سلامتی والی بنا دیا تھا۔ اسی طرح اسودعنسی متنبی نے حضرت ابو مسلم خولانی کو آگ میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو ان کے لیے بھی گلزار بنادیا۔ اس لیے آگ میں درخت کا ہونا علماً وعقلاً محال نہیں مگر کفار اپنی کم عقلی میں اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ جس طرح کفار کو امور آخرت پر اشکال تھا اور انھیں عقلاً تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اسی طرح ملحدین اور بعض بدعتی لوگ قیامت کو تسلیم کرنے کے باوجود قیامت کے بعض معاملات کو تسلیم نہیں کرتے۔ جیسے پل صراط یا وزن اعمال۔ بعض عذابِ قبر کے منکر ہیں، حالانکہ قرآن وسنت کی نصوص اس بارے میں ثابت ہیں اور تمام سلف اس کے قائل ہیں۔ اس لیے جب ایک حقیقت کتاب وسنت سے ثابت ہو تو محض عقلی بنیاد پر اس کا انکار گمراہی ہے۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ اس کو تسلیم کیا جائے۔ ﴿ إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ ﴾ یہ ان کے تعجب کا جواب ہے کہ وہ تو سمجھتے ہیں کہ آگ میں درخت کیسے ہو سکتا ہے؟ حالانکہ اس درخت کے اُگنے کی جگہ قعرِ جہنم یعنی جہنم کی تہ ہے اور اسی میں پھلتا پھولتا ہے۔ جیسے بعض جمادات درختوں کی طرح پانی میں نشو و نما پاتے ہیں۔ اسی طرح زقوم کا درخت آگ میں اُگتا اور آگ میں پرورش پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے آگ میں اس کا پیدا کرنا کوئی مشکل ومحال نہیں۔ ﴿ طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ ﴾ یہ اس درخت کی دوسری صفت وکیفیت ہے کہ اس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہیں۔ ’’طلع‘‘ کے معنی طلوع ہونے، نکلنے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے: ’’طلع الشمس‘‘ یا ’’طلوع الشمس‘‘ یعنی آفتاب کا طلوع ہونا، سورج کا نکل آنا۔ طلوع آفتاب کی مناسبت سے ’’طلع النخل‘‘ کا
Flag Counter