جیسے شراب اور شراب پینے والوں پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’فتنہ‘‘ سے مراد یہاں عذاب ہے کہ یہ درخت ظالموں کے لیے عذاب کا باعث ہوگا۔ ’’فتنۃ‘‘ ’’فَتَنَ‘‘ سے ہے، جس کے اصل معنی سونے کو آگ میں پگھلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا معلوم ہوجائے۔ اس لحاظ سے یہ کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔[1] قرآن مجید میں ہے: ﴿ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ (13) ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ﴾ [الذاریٰت: ۱۴۔ ۱۳] ’’جس دن وہ آگ پر تپائے جائیں گے۔ اپنے جلنے کا مزہ چکھو، یہی ہے جسے تم جلدی مانگتے تھے۔‘‘ عقل کے پجاری جس طرح قیامت قائم ہونے اور انسان کے دوبارہ زندہ ہونے اور حساب و کتاب کے لیے حاضر ہونے کو عقل کے خلاف سمجھتے تھے، اسی طرح جہنم میں زقوم کے درخت کو بھی عقلی طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے، بلکہ اس کا الٹا مذاق اڑاتے تھے۔ وہ اپنی کم عقلی میں ایسی چیز کو جھٹلا رہے تھے جو ایک شدنی حقیقت ہے اور جس سے انھیں بہر حال سابقہ پڑنا ہے۔ آگ میں درخت ہی نہیں سانپ اور بچھو بھی تو ہوں گے۔ لوہے کی زنجیریں ہوں گی عذاب کے فرشتے ہوں گے۔ آگ انھی کو جلائے گی جن کو جلانے کا حکم ہوگا۔ فرشتے اور انبیاء جہنم سے گناہ گاروں کو نکال باہر کریں گے۔ حتی کہ گناہ گار نمازی جہنم میں ہوگا جہنم اسے جلائے گی مگر سجدہ کی جگہ کو جلانا اس کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے۔[2] |