﴿ أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ (58) إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ (59) إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (60) لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ (61) ﴾[الصّٰفّٰت: ۶۱۔ ۵۸] ’’تو کیا ہم کبھی مرنے والے نہیں ہیں۔ مگر ہماری پہلی موت اور نہ ہم کبھی عذاب دیے جانے والے ہیں۔ یقینا یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس جیسی (کامیابی) ہی کے لیے پس لازم ہے کہ عمل کرنے والے عمل کریں۔‘‘ جنتی شخص اپنے جہنمی دوست سے جب بات کرے گا اور کہے گا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے میں یہاں جنت میں ہوں ورنہ مجھے گمراہ کرنے میں تُو نے کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ جنت میں داخل ہوتے ہی فرشتوں نے سلام کہتے ہوئے اہلِ جنت کو یہ بشارت بھی دی تھی: ﴿ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ﴾ [الزمر: ۷۳] ’’تم پر سلام ہو، تم پاکیزہ رہے، پس اس میں داخل ہوجاؤ ہمیشہ رہنے والے۔‘‘ بلکہ انبیائے کرام نے بھی انھیں دُنیا میں بتلا دیاتھا کہ جنت میں ہمیشہ کی زندگی ہوگی اور وہاں موت کو بھی موت آجائے گی۔ یوں وہ جنتی اپنے جہنمی دوست سے بات کرنے کے بعد جنت کی دائمی زندگی اور جنت کی نہ ختم ہونے والی لذتوں کا احساس کرکے وفورِ مسرت سے اپنے ساتھیوں سے کہے گا: اب ہم کبھی مرنے والے نہیں موت جو آنی تھی آچکی، عذاب کا یہاں کوئی تصور نہیں، یہ ہے بڑی کامیابی۔ بعض نے کہا ہے کہ اہلِ جنت کو ابتداء ًیہ علم نہیں ہوگا کہ ان کو موت نہیں آئے |