Maktaba Wahhabi

166 - 438
گی۔ مگر جب موت کو مینڈھے کی شکل میں لاکر ذبح کردیا جائے گا اور اہل جنت کو موت کا یہ انجام دکھا کر کہا جائے گا کہ تم نے یہاں ہمیشہ رہنا ہے اور اہل دوزخ سے بھی کہا جائے گا کہ اب تم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے۔[1] تب انھیں علم ہوگا کہ ہماری دائمی زندگی یہاں کی ہے۔ ایک انسان اگر راحت وآرام کی زندگی بسر کرے اور اسے معلوم ہو کہ یہ راحت و آرام چند یوم کے لیے ہے تو وہ اس عیش و عشرت میں بھی فکر مند ہوگا اس کی صحیح معنوں میں خوشی تب ہوگی جب اسے معلوم ہو گا کہ یہ عیش وآرام کی زندگی دائمی اور ابدی ہے۔ مگر یہ تاویل درست نہیں۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ موت کے ذبح ہونے تک اہل جنت کو اطمینان اور کامل خوشی حاصل نہیں ہوگی۔ حالانکہ انھیں تو جنت میں داخل ہوتے ہی جنت الخلد کی بشارت دے دی گئی تھی۔ وہ جنت بھی کیا جنت ہے جس میں فکر مندی کا دھڑکا لگا رہے۔ اس حدیث میں بھی اس اعلان کے بعد اہل جنت کی خوشی میں اور اہل جہنم کی غمی میں اضافے کا ذکر ہے، چنانچہ الفاظ ہیں: ’’فیزاد أھل الجنۃ فرحا إلیٰ فرحھم ویزاد أھل النار حزنا إلی حزنھم‘‘ اور ظاہر ہے کہ خوشی میں اضافے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ پہلے غمگین ہوں گے۔ اس لیے اس حدیث سے یہ استدلال صحیح نہیں۔ ﴿ أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ ﴾ میں استفہام تعجب کے لیے ہے، سوال کے لیے نہیں۔ اسلوبِ کلام میں یہ بات عموماً پائی جاتی ہے کہ جب انسان حیرت ناک کامیابی حاصل کرتا ہے تو پکار اٹھتا ہے کہ کیا واقعی میں نے اسے پالیا ہے۔ بالکل یہی کیفیت اہلِ جنت کی ہوگی کہ کیا واقعی ہم یہاں پہنچ گئے۔ اور ویسا ہی ہوا جیسا ہمیں بتلایا گیا تھا واقعی ہمیں موت نہیں آئے گی اور نہ ہی یہاں کوئی تکلیف ہوگی۔ کامیابی تو اصل یہی کامیابی ہے۔ جس کی نہ قدرو قیمت کا
Flag Counter