﴿ قَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ (54) فَاطَّلَعَ فَرَآهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ (55) قَالَ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ (56) وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ (57) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۵۷ ۔۵۴] ’’کہے گا کیا تم جھانک کر دیکھنے والے ہو؟ پس وہ جھانکے گا تو اسے بھڑکتی آگ کے وسط میں دیکھے گا۔ کہے گا اللہ کی قسم! یقینا تُو قریب تھا کہ مجھے ہلاک ہی کر دے۔ اور اگر میرے رب کی نعمت نہ ہوتی تو یقینا میں بھی ان میں ہوتا جو (جہنم میں) حاضر کیے گئے ہیں۔‘‘ جنتی دنیا میں اپنے دوست کا قصہ بیان کرنے کے بعد اپنے جنتی ساتھیوں سے کہے گا بھلا تم جھانک کر دیکھو وہ آج کہاں پڑا ہے اور اس کا حال کیا ہے؟ علامہ قرطبی نے ابن الاعرابی سے نقل کیا ہے کہ یہ کلام اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہے اور ﴿ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ ﴾ جملہ استفہامیہ حکم کے معنی میں ہے کہ تم اس کو دیکھو اور یہ بالکل اسی طرح ہے، جیسے شراب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ هَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ ﴾ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جواباً پکار اُٹھے: ’’انتہینا انتہینا‘‘ ’’ہم رُک گئے، ہم باز آگئے۔‘‘ یعنی جنتی اپنے ساتھی کی داستان سنا چکا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کا انجام دیکھو۔ گویا یہ اسلوبِ کلام دراصل کام پر اُبھارنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے، جیسے ہم کہتے ہیں: ذرا جھانک کر دیکھو تو سہی۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہے۔ مگر پہلی بات زیادہ صحیح ہے کہ یہ جنتی کا قول ہے: ’’والأول أولی‘‘[1] ﴿ فَاطَّلَعَ فَرَآهُ ﴾ چناں چہ اپنے ساتھیوں کو دیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے خود |