Maktaba Wahhabi

151 - 438
شتر مرغ کا انڈا سفید زردی مائل یعنی سنہرے رنگ کا ہوتا ہے۔ عرب شعرا اپنے محبوبوں کا تذکرہ اس رنگ سے کرتے تھے۔ اس آیت میں جنتی عورتوں کی صیانت وحفاظت کی طرف بھی اشارہ ہے، کیونکہ شتر مرغ اپنے انڈے اپنے پروں کے نیچے چھپا کر رکھتا ہے اور ان کی حفاظت میں جان لڑا دیتا ہے۔ نیز اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ان حوروں کو کسی نے چھوا نہیں ہوگا، جیسے دوسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ ﴾[الرحمن: ۵۶] ’’ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ہیں، جنھیں ان سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا ہے اور نہ کسی جن نے۔‘‘ امام سعید بن جبیر وغیرہ فرماتے ہیں کہ ’’بَیضٌ‘‘ سے انڈے کے اندر کی سفیدی مراد ہے۔ اسی کو امام ابن جریر نے ترجیح دی ہے اور فرمایا ہے: انڈے کے اوپر کا چھلکا ﴿مَكْنُونٌ ﴾ نہیں ہوتا۔ اسے شتر مرغ کے پر بھی چھوتے ہیں اور انسانوں کے ہاتھوں سے بھی محفوظ نہیں ہوتا۔ بعض نے انڈے کے چھلکے کے نیچے کی جھلی مراد لی ہے۔ بہرحال اس سے مراد انڈے کا سفید چھلکا نہیں بلکہ اندر کی سفید جھلی اور سفیدی مراد ہے اور اس سے مقصود ان کی نزاکت اور نرم اندامی کا بیان ہے۔ اس بارے امام ابن جریر رحمہ اللہ نے حضرت ام سلمہ کی یہ حدیث بھی ذکر کی ہے: فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ’’حورِ عین‘‘ سے کیا مراد ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: موٹی آنکھوں والی سیاہ پلکوں والی حوریں۔ پھر میں نے پوچھا ’’بیض مکنون‘‘ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ان کی نزاکت ونرمی ہے جیسے انڈے کے اندر کی جھلی جو چھلکے کے ساتھ ہوتی ہے اور وہ ’’الغرقي‘‘ ہے۔[1]
Flag Counter