نہ غیر مردوں کو دیکھیں نہ گھروں سے نکلیں۔ گھروں سے نکلنا اور گھور گھور کر، یا محبت آمیز نظروں سے غیر مردوں کو دیکھنے میں اگر خیر کا کوئی پہلو ہوتا تو جنت کی حوروں کا یہ وصف بیان ہی نہ کیا جاتا کہ وہ نگاہیں نیچے رکھنے والی اور اپنے محلات میں رہنے والی ہوں گی۔ یہ ان کی خوبیوں کا بیان ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ ان کے لیے محلات سے نکلنا اور غیر مردوں کو دیکھنا خرابی ہے خوبی نہیں۔ ﴿عِينٌ ﴾ ’’عَیناء‘‘ کی جمع ہے، جس سے بڑی موٹی کشادہ آنکھوں والی حوریں مراد ہیں: ﴿وَحُورٌ عِينٌ (22) كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ (23) ﴾ [الواقعۃ: ۲۳، ۲۲] ’’اور (ان کے لیے وہاں) سفید جسم، سیاہ آنکھوں والی عورتیں ہیں جو فراخ آنکھوں والی ہیں۔ چھپا کر رکھے ہوئے موتیوں کی طرح۔‘‘ ﴿كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ ﴾ ’’جیسے وہ چھپا کر رکھے ہوئے انڈے ہوں۔‘‘ ’’بیض‘‘ یہ ’’بیضۃ‘‘ کی جمع ہے۔ اور انڈے کے سفید ہونے کی وجہ سے اسے ’’بیضۃ‘‘ کہا جاتا ہے۔ انڈا سفید ہوتا ہے اور پروں کے نیچے محفوظ رہتا ہے اس لیے تشبیہ کے طورپر اس سے خوب صورت عورت مراد لی جاتی ہے۔[1] ﴿ مَكْنُونٌ ﴾ ’’کِنٌّ‘‘ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی ہیں؛ چھپایا ہوا، محفوظ کیا ہوا۔ حسن بصری وغیرہ فرماتے ہیں: اس سے مراد شتر مرغ کے انڈے ہیں۔ اہلِ عرب خوب صورت عورتوں کو شتر مرغ کے انڈوں سے تشبیہ دیتے تھے۔ بلکہ جب وہ کسی کے حسن ونظافت کی تعریف کرتے تو کہتے تھے ’’کأنہ بیض النعام‘‘ گویا وہ تو شتر مرغ کا انڈہ ہے۔[2] |