کرے۔ جنت کی ان عورتوں کا یہ وصف اپنے خاوندوں سے کامل محبت اور ان کی دل جوئی کی بنا پر ہے۔ حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس کا یہ مفہوم بھی ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی نگاہیں نیچی رکھیں گی، یعنی وہ اتنی وفا شعار اور خوب رُو ہوں گی کہ ان کے خاوند کسی اور کی طرف نظر اٹھانے کی خواہش نہیں کریں گے۔[1] ان کی اس صفت کا ذکر ایک اور مقام پر یوں آیا ہے: ﴿وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ ﴾ [ص: ۵۲] ’’اور ان کے پاس نگاہ نیچے رکھنے والی ہم عمر عورتیں ہوں گی۔‘‘ ان کی نگاہیں نیچی اور صرف اپنے خاوندوں کے لیے ہی اٹھنے والی ہوں گی، ایسا کیوں نہ ہو: ﴿حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ ﴾ [الرحمن: ۷۲] ’’سفید جسم، سیاہ آنکھوں والی عورتیں، جو خیموں میں روکی ہوئی ہیں۔‘‘ وہ اپنے محلات میں رہنے والی ہوں گی، ان سے باہر نکل کر اپنی زیب و زینت کا اظہار کرنے والی نہیں ہوں گی۔ دنیا میں بھی عورتوں اور مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے اور عورتوں کے لیے غیر مردوں کو دیکھنے کی ممانعت ہے اور بغیر ضرورت کے گھروں سے نکلنے کی بھی ممانعت ہے۔ ازواجِ مطہرات سے بطورِ خاص فرمایا گیا ہے: ﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى ﴾ [الأحزاب: ۳۳] ’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو۔‘‘ گویا اللہ تعالیٰ تو چاہتے ہیں دنیا میں بھی عورتیں جنت کی حوریں بن کر رہیں۔ |