یہاں اہلِ جنت کی ازواج کی تین صفات کا ذکر ہوا ہے۔ ﴿قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ ﴾ نگاہ نیچے رکھنے والی حیا دار عورتیں۔ ’’قصر‘‘ کے معنی روکنا اور بند کرنا اور ’’الطرف‘‘ کے معنی آنکھ ہیں۔ یہ لفظ جمع وتثنیہ استعمال نہیں ہوا کیونکہ اصلاً یہ مصدر ہے قرآنِ پاک میں یہ مفرد ہی استعمال ہوا ہے۔ سورۃ الشوریٰ میں ہے: ﴿يَنْظُرُونَ مِنْ طَرْفٍ خَفِيٍّ ﴾ [الشوریٰ: ۴۵] ’’چھپی آنکھ سے دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘ اسی طرح قرآنِ مجید ہی میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں اللہ کے ایک بندے نے، جس کے پاس کتاب کا علم تھا، کہا: ﴿أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ﴾ [النمل: ۴۰] ’’میں اسے (تخت بلقیس کو) تیرے پاس اس سے پہلے لے آتا ہوں کہ تیری آنکھ تیری طرف جھپکے۔‘‘ دراصل طرف کے معنی تو کسی چیز کا کنارا اور سِرا کے ہیں۔ مجازاً اس کا اطلاق پلک جھپکنے پر ہوتا ہے۔ پلک جھپکنے کو دیکھنا لازم ہے اس لیے ’’الطرف‘‘ کے معنی دیکھنا بھی آتا ہے۔[1] اور دیکھنا آنکھ سے ہی ہوتا ہے اس لیے آنکھ کو بھی ’’الطرف‘‘ کہا گیا ہے۔ مراد یہاں یہ ہے کہ اہلِ جنت کی بیویاں نگاہ نیچے رکھنے والی اور اپنی نگاہوں کو روکنے والی ہوں گی۔ اور وہ اپنے خاوندوں کے سوا کسی اور کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھیں گی۔ کوئی مرد پسند نہیں کرتا کہ اس کی بیوی کسی اور کی طرف دیکھے اور اسے پسند کرے۔ اسی طرح عورت بھی پسند نہیں کرتی کہ اس کا خاوند کسی اور کی طرف التفات |