﴿وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ (48) كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ (49) فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (50) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۵۰۔ ۴۸] ’’اور ان کے پاس نگاہ نیچے رکھنے والی، موٹی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی۔ جیسے وہ چھپا کر رکھے ہوئے انڈے ہوں۔ پھر ان کے بعض بعض کی طرف متوجہ ہوں گے، ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔‘‘ پہلے اہلِ جنت کے رہنے سہنے اور ان کے خورد و نوش کا ذکر ان کی جسمانی اور روحانی لذتوں کے تناظر میں ہوا ہے۔ اب ان کی عائلی زندگی کا تذکرہ ہے اور یہ بھی اس لیے کہ جنت کی تمام لذتیں اس کے بغیر ادھوری ہیں اور انسان کی خوشیاں عورت کے بغیر نامکمل ہیں۔ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں بسایا تو وہ وہاں تمام تر انعامات اور لذائذ کے باوجود وحشت و تنہائی محسوس کرتے تھے، ان کی تسکین کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت حوا کو پیدا کیا۔[1] اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ﴾ [الأعراف: ۱۸۹] ’’وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کی طرف (جا کر) سکون حاصل کرے۔‘‘ انسان کی لذت وتسکین کا ایک بڑا سبب تزوج کی زندگی ہے تجرد کی نہیں۔ چنانچہ جنت میں بھی اللہ تعالیٰ تزوج کی زندگی سے اہلِ جنت کو سرشار فرمائیں گے۔ |