ان کا حضرت جابر سے سماع ثابت نہیں۔ یہ مختصراً ’’أبو داود مع عون المعبود‘‘: وغیرہ میں بھی ہے۔[1] ’’غیلان‘‘ کے پریشان کرنے پر اذان کا ذکر دیگر روایات میں بھی ہے۔[2] مگر ان میں بھی کلام ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’غول‘‘ کے وجود کا انکار نہیں انکار جاہلیت کے غلط اعتقاد کا ہے۔ ﴿ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ ﴾ یہ جنتی شراب کی پانچویں خصوصیت ہے کہ اس کو پینے سے وہ مدہوش نہیں ہوں گے۔ ’’ینزفون‘‘ کا مصدر ’’نزف‘‘ ہے جس کے اصل معنی ہیں کسی چیز کا ختم ہونا۔ کہا جاتا ہے ’’نزف الماء‘‘ یعنی کنویں سے تدریجاً سارا پانی کھینچ لینا۔ ’’نزف دمہ‘‘ یا ’’نزف دمعہ‘‘ اس کا خون یا اس کے آنسوؤں کا کلیتہً ختم ہوجانا۔ یوں ’’نزف‘‘ کے معنی بتدریج عقل زائل ہو کر بے ہوش ہوجانے، خبطی اور مدہوش ہوجانے کے ہیں کہ جنت کی شراب سے دنیا کی شراب کی طرح بے ہوشی نہیں ہوگی اور عقل زائل نہیں ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ شراب میں چار خصلتیں پائی جاتی ہیں: 1.نشہ، 2.سر درد، 3.قے، 4.پیشاب آنا۔ مگر جنت کی شراب میں یہ علّتیں نہیں ہوں گی۔ [3] ایک قراء ت میں یہ ’’ینزِفون‘‘ ہے یعنی زاء کے کسرہ کے ساتھ، سورۃ الواقعہ میں یہی قراء ت عاصم رحمہ اللہ کی ہے۔[4] جب کہ حمزہ اور کسائی رحمہما اللہ دونوں مقامات، یعنی الصّٰفّٰت اور الواقعہ میں زاء کے کسرہ سے پڑھتے ہیں، اور جمہور دونوں مقامات پر ’’زاء‘‘ پر زبر پڑھتے ہیں۔ اور اس کے معنی ہیں شراب سے مدہوش ہونا۔ یہی معنی ’’ینزِفون‘‘ کے بھی ہیں مگر اس میں ایک معنی ختم ہونے کے بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے |