شراب انھیں پیش کی جائے گی، تاہم وہ خوشی میں باہم چھینا جھپٹی بھی کریں گے: ﴿ يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَا لَغْوٌ فِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ ﴾ [الطور: ۲۳] ’’وہ اس میں ایک دوسرے سے شراب کا پیالہ چھینیں جھپٹیں گے، جس میں نہ بے ہودہ گوئی ہو گی اور نہ گناہ میں ڈالنا۔‘‘ شراب پی کر کوئی ناروا بول اور بدعملی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ ﴿ بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ ﴾ یہ شراب کی دوسری صفت ہے کہ وہ سفید، صاف وشفاف ہوگی۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ جنت کی شراب دودھ سے زیادہ سفید ہو گی۔[1] دنیا کی شراب کی طرح گدلی، زرد یا سیاہی مائل نہیں ہوگی۔ اس کی تیسری صفت یہ ہوگی کہ پینے والوں کے لیے لذت وسرور کا باعث ہوگی۔ دنیا کی شراب کی طرح اس میں تلخی نہیں ہوگی۔ بعض نے کہا ہے یہاں مضاف محذوف ہے یعنی اصل میں ’’ذات لذۃ‘‘ (لذت دینے والی) تھا۔ لیکن ’’لذۃ‘‘ کو مصدر سمجھا جائے تو مصدر اسم فاعل کے معنی میں مستعمل ہے۔ یوں اس کے معنی ہوں گے: سراپا لذت یا مجسم لذت۔[2] ﴿ لَا فِيهَا غَوْلٌ ﴾ جنت کی شراب کی چوتھی خاصیت یہ ہوگی کہ اس سے سر درد نہیں ہوگا۔ ’’غول‘‘ کے معنی ہیں کسی کو یوں ہلاک کردینا کہ اس کا پتا بھی نہ چل سکے۔[3] امام ابن جریر نے کہا ہے کہ آفت ومصیبت کو ’’غول‘‘ کہتے ہیں۔ یہ آفت سر درد کی ہو، پیٹ درد کی ہو یا کوئی اور تکلیف او رپریشانی ہو۔ ’’غول‘‘ کے لغوی معنی سے شراب کی مضرت واضح ہوتی ہے کیونکہ شراب آہستہ آہستہ شرابی کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیتی ہے۔ معدہ، جگر اور گردے اندر ہی اندر برباد ہوتے چلے جاتے |