سورۃ الطور میں ہے: ’’ان پر انھی کے لڑکے چکر لگاتے رہیں گے جیسے وہ چھپائے ہوئے موتی ہوں۔‘‘[1] گویا یہ دور خود کار (آٹو میٹک) نہیں ہوگا۔ بلکہ جنتیوں کی عزت افزائی کے لیے خدام کے ہاتھوں سے ہوگا جن کے بارے میں حدیث میں ہے: (( اطفال المشرکین ہم خدم أہل الجنۃ )) [2] ’’مشرکین کے بچے (جو بچپن میں فوت ہوگئے تھے) اہل جنت کے خدام ہوں گے۔‘‘ ﴿ بِكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ ﴾ ’’صاف بہتی شراب کا جام۔‘‘ یہاں ’’کأس‘‘ کا ذکر ہے ’’خمر‘‘ (شراب) کا نہیں۔ اس لیے کہ لغت عرب میں ’’کأس‘‘ کے لفظ سے شراب بھرا پیالہ ہی مراد ہوتا ہے۔ خالی پیالے کو ’’ کأس‘‘ نہیں کہتے، ’’قدح‘‘ کہتے ہیں۔ بلکہ امام ضحاک اور اخفش نے کہا ہے قرآن میں جہاں بھی ’’ کأس‘‘ کا لفظ آیا ہے وہاں شراب مراد ہے۔ خدام یہ شراب بھرے پیالے لیے اہل جنت کی خدمت میں ہوں گے۔ خدام تو بہ کثرت ہوں گے مگر ’’ کأس‘‘ مفرد ہے جو بجائے خود قرینہ ہے اس بات کا کہ مراد یہاں پیالہ نہیں شراب ہے۔ مگر علامہ راغب رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ’’ کأس‘‘ کا کبھی اطلاق خالی پیالے یا صرف پینے کی چیز پر بھی ہوتا ہے، مثلاً: ’’ شربت کأسا‘‘ (میں نے شراب کا پیالہ پیا۔) اور ’’کأس طیبۃ‘‘ یعنی عمدہ شراب۔[3] دنیا میں شراب کے یہ پیالے شیشے، سونے، چاندی اور مٹی کے بنے ہوئے |