ابرار ومتقین کے لیے ’’النعیم‘‘ یعنی نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی۔ یہ نعمتیں جسمانی بھی اور روحانی بھی، نہ وہاں محنت ومشقت نہ کوئی کلفت وپریشانی، بس راحت ہی راحت ہوگی۔ ﴿ عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ ﴾ یہ جنتیوں کی محفلوں اور مجلسوں کا بیان ہے۔ سرر، سریر کی جمع ہے، یعنی تخت، جس پر خوش حال لوگ ٹھاٹھ سے بیٹھتے ہیں، وہ ان تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ اس آیت میں ان کی باہمی محبتوں اور چاہتوں کا بیان ہے، اگر دلوں میں رنجش ہو تو اکٹھے بیٹھے ہوئے بھی انسان ایک دوسرے سے منہ موڑ لیتا ہے۔ مگر اہلِ جنت کے دل تو باہمی کدورتوں سے پاک صاف ہوں گے: ﴿ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ ﴾ [الحجر: ۴۷] ’’اور ہم ان کے سینوں میں جو بھی کینہ ہے نکال دیں گے، بھائی بھائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔‘‘ گویا جنت میں معصیت کا کوئی تصور نہیں، نہ قولاً نہ عملاً نہ فکراً، نہ ظاہراً نہ باطناً۔ انھی تختوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ﴿ مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ ﴾ [الطور: ۲۰] ’’ایسے تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جو قطاروں میں بچھائے ہوئے ہیں۔‘‘ ان پلنگوں کے بارے میں ہے کہ وہ سونے اور جواہرات سے مرصع ہوں گے: ﴿ عَلَى سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ ﴾ [الواقعۃ: ۱۵] ’’سونے اور جواہر سے بنے ہوئے تختوں پر (آرام کررہے ہوں گے)۔‘‘ یہ پلنگ بلندی پر ہوں گے جنتی ان پر بیٹھنا چاہیں گے تو وہ نیچے ہوجائیں گے۔[1] ارشاد باری تعالیٰ ہے: |