Maktaba Wahhabi

135 - 438
امام رازی نے ’’فواکہ‘‘ کے تناظر میں فرمایا ہے کہ جنت میں جتنی غذائیں ہوں گی سب لذت وسرور حاصل کرنے کے لیے ہوں گی نہ کہ بھوک کی حاجت رفع کرنے کے لیے، بلکہ وہاں تو حفظانِ صحت، حصولِ قوت اور دوامِ زندگی کے لیے غذا کی ضرورت ہی نہیں ہوگی، کیونکہ جنت میں جسمانی صحت و قوت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگی۔ یہاں صرف ’’فواکہ‘‘ کا ذکر ہے جب کہ دوسرے مقام پر ’’لحم طیر‘‘ (پرندوں کا گوشت) کا ذکر بھی ہے: ﴿ وَفَاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ (20) وَلَحْمِ طَيْرٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ (21) ﴾ [الواقعۃ: ۲۱۔ ۲۰] ’’اور ایسے پھل لے کر جنھیں وہ پسند کرتے ہیں۔ اور پرندوں کا گوشت لے کر جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی خدام پسندیدہ پھل اور مرغوب پرندوں کا گوشت حاضر خدمت کریں گے۔ یہ گوشت بھی بھوک ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ لذت ولطف کے لیے ہوگا۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتاب تفسیر سورۂ یٰسٓ ملاحظہ فرمائیں۔[1] ﴿ وَهُمْ مُكْرَمُونَ ﴾ ان کی وہاں بڑی تکریم وتعظیم ہوگی۔ تکریم کے بغیر محض کھانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کھانا تو گداگر کے دامن میں بھی ڈال دیا جاتا ہے۔ مگر اعزاز واکرام کے بغیر لذیذ کھانا بھی بدمزہ لگتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ؎ اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ﴿ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴾ یہ ان کے مستقل مسکن کا ذکر ہے کہ وہ نعمت کے باغوں میں ہوں گے۔ جن میں انھیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بے شمار انعامات واحسانات سے نوازا جائے گا۔ ’’فجار‘‘ کے لیے ’’جحیم‘‘ (بھڑکتی ہوئی آگ) ہوگی جب کہ
Flag Counter