﴿ فَوَاكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ (42) فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ (43) عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ (44) يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ (45) بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ (46) لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ (47) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۴۲۔ ۴۷] ’’کئی قسم کے پھل اور وہ عزت بخشے گئے ہیں۔ نعمت کے باغوں میں۔ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ان پر صاف بہتی ہوئی شراب کا جام پھرایا جائے گا۔ جو سفید ہوگی، پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی۔ نہ اس میں کوئی درد سر ہوگا اور نہ وہ اس سے مدہوش کیے جائیں گے۔‘‘ ﴿ فَوَاكِهُ ﴾ یہ جنتی رزق کی تفسیر ہے۔ فواکہ، فاکہۃ کی جمع ہے جو ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ انار اور کھجور کے علاوہ باقی میوہ جات کو ’’فاکہۃ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ قرآنِ مجید میں ان کا ’’فاکہۃ‘‘ پر عطف کے ساتھ ذکر ہوا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انار اور کھجور ’’فاکہۃ‘‘ سے غیر ہیں۔ جیسے فرمایا ہے: ﴿ فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ ﴾ [الرحمن: ۶۸] ’’ان دونوں میں پھل اور کھجور کے درخت اور انار ہیں۔‘‘ علامہ راغب نے تو فرمایا کہ قرآنِ مجید میں انگور اور انار کا ’’فاکہۃ‘‘ پر عطف ہوا ہے۔ مگر ’’عنب‘‘ یعنی انگور کا ’’فاکہۃ‘‘ کے ساتھ ذکر نہیں ہوا۔ مگر علامہ فیروز آبادی نے کہا ہے کہ ہر پھل پر ’’فواکہ‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور جنھوں نے ’’فواکہ‘‘ کا اطلاق صرف میوہ جات پر کیا ہے ان کی تردید کی ہے اور اسے قولِ باطل و مردود قرار دیا ہے۔[1] |