کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی گئی تھی۔ انھی خوش نصیبوں کا ذکرِ خیر آئندہ آیات میں بھی آرہا ہے۔[1] بعض نے اسے ل کے کسرہ کے ساتھ ’’الْمُخْلِصِیْنَ‘‘ پڑھا ہے، یعنی جو خالص ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت کرتے ہیں وہ عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ ﴿ أُولَئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ ﴾ اللہ کے انھی بندوں کے لیے مقرر رزق ہے۔ ’’رزق‘‘ سے یہاں تمام غذائی اشیاء مراد ہیں۔ ورنہ اس کا اطلاق تو عطیہ، نصیبہ اور ہر قسم کی استعمال کی چیزوں پر بھی ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’رُزِقْتُ عِلْمًا‘‘ ’’مجھے علم عطا ہوا ہے۔‘‘ اور ﴿ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ﴾ [البقرۃ: ۳] ’’اور اس میں سے جو ہم نے انھیں دیا ہے، خرچ کرتے ہیں۔‘‘ میں بھی کھانے کی اشیا ہی نہیں، بلکہ مال وعلم اور جو کچھ اللہ نے عطا فرمایا ہے سب مراد ہے۔[2] ’’معلوم‘‘ سے مراد جنت کا رزق ہے۔ جس کی صفات قرآن میں بیان کردی گئی ہیں کہ وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں، وہ جب اور جو چاہیں گے ان کی خدمت میں باعزت پیش کیا جائے گا۔ ہر قسم کے آپس میں ملتے جلتے پھلوں سے ان کی تواضع کی جائے گی۔ وہ رزق بھوک لگنے کی بنا پر نہیں، کہ بھوک وپیاس کی کلفت کا وہاں تصور ہی نہیں، بلکہ لذت ولطف حاصل کرنے کے لیے کھایا جائے گا۔ ان کا ذائقہ مختلف ہوگا اور ایسا ہوگا جس کا دنیا میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ وہ رزق انجانا بھی نہیں ہوگا، بلکہ ہر چیز جانی پہچانی ہوگی: ﴿ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ﴾ [البقرۃ: ۲۵] ’’جب کبھی ان سے کوئی پھل انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں |