ہے کہ یہ استثناء کفار کے احوال و عذاب دونوں سے ہے جن کا پہلی دو آیات میں ذکر ہے کہ مخلصین نہ عذاب چکھیں گے اور نہ ہی انھیں صرف اعمال کا بدلہ ملے گا بلکہ ایک عمل کا دس سے سات سو گنا تک اجر ملے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ مخلصین سے مناقشہ بھی نہیں کرے گا اور ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔[1] اس استثنا کا قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے، مثلاً: سورۃ العصر میں ہے: ﴿ وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ [العصر: ۱۔ ۳] ’’زمانے کی قسم! کہ بے شک ہر انسان یقینا گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔‘‘ اسی طرح سورۃ التین میں فرمایا: ﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4) ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (5) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ ﴾ [التین: ۴۔ ۶] ’’بلاشبہہ یقینا ہم نے انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے اسے لوٹا کر نیچوں سے سب سے نیچا کر دیا۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔‘‘ ﴿ الْمُخْلَصِينَ ﴾ ’’خالص کیے ہوئے بندے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے لطف وکرم سے انھیں خالص بنایا ہے اور اپنے فضل واحسان سے اپنی عبادت واطاعت کے لیے ان کا چناؤ کیا ہے۔ ان کی سعادت مندی زمین وآسمان کے پیدا |