Maktaba Wahhabi

129 - 438
2 وہ کسی سے محبت کرے تو اللہ کے لیے کرے۔ 3 وہ ناپسند جانے کہ وہ پھر کفر کی راہ پر چل نکلے، جیسا کہ وہ ناپسند کرتا ہے کہ اسے آگ میں پھینک دیا جائے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جیسے منہ کھانے پینے سے شاد کام ہوتا ہے اسی طرح دل ایمان سے حلاوت ومٹھاس محسوس کرتا ہے۔ بلکہ ایمان کی یہ حلاوت کھانے پینے کی مٹھاس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہرقل (شاہِ روم) نے ابوسفیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو سوالات کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا: کیا ان پر ایمان لانے والوں میں سے کوئی مرتد ہوا ہے؟ ابوسفیان نے کہا: نہیں۔ ہرقل نے کہا: ’’کذلک الایمان حین تخالط بشاشتہ القلوب۔‘‘[1] ’’ایمان اسی طرح ہے، جب اس کی خوشی دل میں سما جاتی ہے (تو پھر نکلتی نہیں)۔‘‘ ﴿ الْعَذَابِ الْأَلِيمِ ﴾ دردناک عذاب۔ ألیم، اَلَمْ سے ہے جس کے معنی ہیں سخت درد۔ اور الیم بمعنی مؤلم ہے، یعنی دردناک، دکھ دینے والا۔ جس کا دکھ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ﴿ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾ یہ دردناک عذاب تمھارے ہی اعمال کا بدلہ ہے۔ اعمال میں عمل اعتقادی (کفر وشرک) بھی ہے اور عمل قولی وفعلی بھی ہے۔ جیسے وہ اپنے معبودوں کی بزرگی کی باتیں کرتے، ان سے مدد مانگتے، ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے قتل وغارت گری کرتے، لڑکیوں کو زندہ درگور کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو اِیذاء پہنچاتے تھے۔ الغرض جس طرح عمل کا اطلاق ایمان پر ہوتا ہے، اسی طرح عمل کا اطلاق کفر وشرک پر بھی ہوتا ہے۔
Flag Counter