عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ ﴾ [ہود: ۱۰] ’’اور بے شک اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھائیں کسی تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہو تو یقینا ضرور کہے گا سب تکلیفیں مجھ سے دور ہوگئیں، بلاشبہہ وہ یقینا بہت پھولنے والا، بہت فخر کرنے والا ہے۔‘‘ اس میں اشارہ ہے کہ انسان دنیا میں معمولی سی نعمت پا کر اِتراتا اور گھمنڈ میں آجاتا ہے۔ یہی مفہوم اس آیت مبارکہ کا ہے: ﴿ كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى (6) أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى ﴾ [العلق: ۷، ۶] ’’ہرگز نہیں، بے شک انسان یقینا حد سے نکل جاتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے کہ غنی ہوگیا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ’’ذوق‘‘ کا اطلاق منہ کے ذریعے کھانے پینے پر ہی نہیں ہوتا، بلکہ عذاب، رحمت، نعمت اور ذوق قلبی پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے حدیث میں ہے: (( ذاق طعم الایمان من رضی باللہ ربا و بالإسلام دینا وبمحمد نبیا )) [1] ’’اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو راضی ہوا اللہ سے کہ وہ میرا رب ہے، اسلام سے کہ وہ میرا دین ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہ وہ میرے نبی ہیں۔‘‘ اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( ثلاث من کن فیہ وجد حلاوۃ الایمان۔ )) [2] ’’تین چیزیں جس میں ہیں اس نے ایمان کی مٹھاس پالی: 1 اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو۔ |