﴿إِنَّكُمْ لَذَائِقُو الْعَذَابِ الْأَلِيمِ (38) وَمَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (39) إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (40) أُولَئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ (41) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۴۱۔ ۳۸] ’’بلاشبہہ تم یقینا دردناک عذاب چکھنے والے ہو۔ اور تمھیں صرف اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے۔ مگر اللہ کے خالص کیے ہوئے بندے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے مقرر رزق ہے۔‘‘ مشرکین پر فردِ جرم عائد کر دینے کے بعد اب ان کے انجام سے خبردار کیا گیا کہ تم یقینا دردناک عذاب چکھنے والے ہو۔ ﴿ لَذَائِقُو ﴾ یہ اصل میں ’’لَذَائِقُون‘‘ ہے اضافت کی وجہ سے ’’ن‘‘ گر گیا ہے۔ اور اس کا مادہ ’’ذوق‘‘ ہے۔ جس کے معنی چکھنا اور تھوڑی سی چیز کھانا ہیں۔ زیادہ مقدار میں کھانے پر ’’أکل‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں عموماً عذاب کے لیے ’’ذوق‘‘ کا لفظ اختیارکیا گیا ہے۔ عرف میں تو یہ تھوڑا کھانے پر بولا جاتا ہے مگر اس میں معنوی کثرت کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ عذاب کے لیے یہ لفظ عموماً اس لیے ہے کہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہو۔ اور کبھی یہ لفظ رحمت کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿ وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ﴾ [ہود: ۹] ’’اور یقینا اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے کوئی رحمت چکھائیں۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ |