سردار اور بڑا کون جانے گا؟ حکم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چلے گا ہماری بات کون تسلیم کرے گا؟ ﴿وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا ﴾ اسی تکبر کا نتیجہ تھا کہ وہ کہتے تھے: کیا ہم اپنے معبودوں کو دیوانے شاعر کی خاطر چھوڑ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں، بلکہ پہلے انبیائے کرام میں سے ہر نبی کے بارے میں بھی ان کی اُمت نے یہی کہا کہ یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ﴾ [الذاریات: ۵۲] ’’اسی طرح ان لوگوں کے پاس جو ان سے پہلے تھے، کوئی رسول نہیں آیا مگر انھوں نے کہا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ۔‘‘ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار کے عناد کی انتہا دیکھیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوانہ و شاعر کہتے تھے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دو متضاد حقیقتیں ہیں۔ شاعر عالم اور بڑا عقل مند ہوتا ہے جو اپنے کلام میں بڑے سلیقے سے وزن وقوافی کا اہتمام کرتا ہے۔ جب کہ ’’مجنون‘‘ دیوانے کو کہتے ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں ہم نے کم علم اور کم عقل شاعر بھی دیکھے ہیں بلکہ بعض تو کہتے ہیں کہ ہم اچھا کلام تب کہتے ہیں جب نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیائے کرام کو شاعر اور مجنون اس لیے کہا گیا کہ شاعر کا کلام سننے والے پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس کے خیال کی پرواز کو الفاظ کے اوزان وتناسب پر سننے والے لطف وسرور سے جھوم اٹھتے ہیں۔ قرآنِ پاک کی تاثیر شعرا کے کلام سے کہیں زیادہ تھی جو سن لیتا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ تبھی تو کفار قرآن سننے سے منع کرتے تھے کہ سننے والے اس سے متاثر نہ ہوں۔ تاثیر کی اسی مماثلت پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شاعر سمجھتے تھے کہ جیسے شاعر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا |