کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کرتے تھے اور حق بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( الکبر بطر الحق وغمط الناس۔ )) [1] ’’تکبر حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔‘‘ چنانچہ مشرکین کا کلمہ حق سے انکار تکبر تھا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انکار بھی تکبر کا نتیجہ تھا۔ وہ بڑے غرور میں کہتے تھے: ﴿أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا ﴾ [ص: ۸] ’’کیا ہمارے درمیان میں سے اسی پر نصیحت نازل کی گئی ہے؟‘‘ بلکہ وہ یہ بھی کہتے تھے: ﴿وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ﴾ [الزخرف: ۳۱] ’’اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا؟‘‘ بلکہ جیسے انھیں دعوتِ توحید پر تعجب تھا ویسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی تعجب تھا: ﴿بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ ﴾ [قٓ: ۲] ’’بلکہ انھوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انھی میں سے ایک ڈرانے والا آیا تو کافروں نے کہا یہ ایک عجیب چیز ہے۔‘‘ اس لیے مشرکینِ مکہ کا تکبر توحید و رسالت سے انکار اور آپ کو حقیر جاننے پر مبنی تھا۔ انھیں اپنی چودھراہٹ کا خطرہ تھا کہ اگر ہم آپ کو رسول تسلیم کرلیں تو ہمیں |