’’اور یقینا اگر تُو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو ضرور ہی کہیں گے اللہ نے۔‘‘ ﴿ قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ [یونس: ۳۱] ’’کہہ دے کون ہے جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یا کون ہے جو کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور کون زندہ کو مردہ سے نکالتا اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون ہے جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے؟ تو ضرور کہیں گے ’’اللہ‘‘ تو کہہ پھر کیا تم ڈرتے نہیں؟‘‘ ﴿ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴾ [العنکبوت: ۶۳] ’’اور یقینا اگر تُو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیا تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے، کہہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔‘‘ مشرکین مکہ کے اس اعتراف کا ذکر دیگر مقامات میں بھی ہوا ہے۔[1] اس لیے لا الٰہ الا اللہ کے یہ معنی کرنا کہ ’’لا خالق إلا اللہ‘‘ یا ’’لا مالک إلا اللہ‘‘ یا ’’لا رازق إلا اللہ‘‘، یا ’’لا قادر إلا اللہ‘‘ تو یہ درست نہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ان صفات کا اعتراف مشرکین کو تھا ان کا اختلاف ’’لا إلہ إلا اللہ‘‘ سے تھا۔ بلاشبہہ جیسے اللہ تعالیٰ ہی خالق، مالک، رازق، قادر، موت وحیات کا مالک ہے |