جاتا ہے اور بسا اوقات زیردستوں کو اس سے بھی حوصلہ ہوتا ہے کہ ہم مجرم ہیں اور سزا پا رہے ہیں تو ہمارے ساتھ ہمارے لیڈروں اور پیشواؤں کو بھی تو سزا مل رہی ہے۔ مگر قیامت کے روز مجرموں کا عذاب میں مشترک ہونا قطعاً تسلی کا باعث نہیں ہوگا، کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَنْ يَنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذْ ظَلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ ﴾ [الزخرف: ۳۹] ’’اور آج یہ بات تمھیں ہرگز نفع نہ دے گی، جب کہ تم نے ظلم کیا کہ بے شک تم (سب) عذاب میں شریک ہو۔‘‘ بلکہ عذاب میں مبتلا پیروکار اور اطاعت گزار کہیں گے: ﴿ وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا (67) رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا ﴾ [الأحزاب: ۶۷۔ ۶۸] ’’اور کہیں گے اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہنا مانا تو انھوں نے ہمیں اصل راہ سے گمراہ کردیا۔ اے ہمارے ربّ انھیں دوگنا عذاب دے اور ان پر لعنت کر، بہت بڑی لعنت۔‘‘ ان کی اسی خواہش کا ذکر سورۃ الاعراف میں بھی ہے: ﴿ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَكِنْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ [الأعراف: ۳۸] ’’یہاں تک کہ جس وقت سب ایک دوسرے سے آملیں گے تو ان کی پچھلی جماعت اپنے سے پہلی جماعت کے متعلق کہے گی اے ہمارے |