ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے کیونکہ انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے دوست کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ ہم نے انھیں اپنی طرف سے فائدہ پہنچایا اور انھیں اپنے جیسا سمجھا تھا۔‘‘ یعنی دنیا میں تو ہم اپنے آپ کو گمراہ نہیں سمجھتے تھے، اس لیے ہم نے انھیں اپنا ہم نوا بنایا۔ آنکھیں تو اب کھلی ہیں کہ ہم گمراہ تھے۔ لہٰذا ہم اقرار کرتے ہیں کہ ان کو ہم نے گمراہ کیا۔ ﴿ فَإِنَّهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ ﴾ یہ ان کے اعترافِ جرم کے بعد اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ جیسے پیشوا اور پیروکار دنیا میں ارتکاب معاصی اور شرک وکفر میں باہم مشترک اور ہم پیالہ وہم نوالہ تھے آج وہ عذاب میں بھی ایک ساتھ ہوں گے۔ نہ اطاعت گزاروں کا یہ عذر قابل قبول ہوگا کہ ہم گمراہ نہ تھے ہمیں گمراہ کیا گیا تھا اور نہ ہی پیشواؤں کا یہ عذر قبول ہوگا کہ ہم نے گمراہ نہیں کیا یہ خود ہی ہدایت کے طلب گار نہ تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی گناہ کا ارتکاب کسی کے کہنے پر کرتا ہے تو وہ آخرت میں یہ کہہ کر کہ مجھے تو فلاں نے کہا تھا، بری الذمہ نہیں ہوگا۔ ہاں اگر اس نے جبر واِکراہ کی صورت میں جان بچانے کے لیے گناہ کا عمل کرلیا تو ان شاء اللہ اس کی معافی ہوجائے گی۔ جیسے فرمایا: ﴿ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ ﴾ [النحل: ۱۰۶] ’’سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔‘‘ (ان کے لیے آخرت کا عذاب نہیں ہے۔) مجرم ایک جگہ اکٹھے سزا پا رہے ہوں تو یہ اشتراکِ عذاب حوصلے کا سبب بن |