کیونکہ نیک اور اچھے کام دائیں ہاتھ سے سر انجام دیے جاتے ہیں اور نامبارک کام بائیں ہاتھ سے۔ چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے اور تمام (اچھے) کاموں میں دائیں جانب پسند تھی۔[1] اسی طرح کھانے پینے میں، مسجد میں داخل ہونے میں، لباس پہننے اور سونے کے وقت اور جب کسی کو کوئی چیز دیتے تو دائیں جانب کو مقدم رکھتے تھے۔ اور اس موضوع کی احادیث معروف ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’ہمیشہ سے دین کا یہ اصول ہے کہ تمام تکریم و تز یین کے کام دائیں جانب سے سرانجام دیے جائیں۔‘‘[2] انسان کا نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں میں نیکیاں لکھنے والا بھی دائیں جانب ہوتا ہے اور محسنین کو نامہ اعمال بھی دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس لیے ’’عن الیمین‘‘ سے بطور استعارہ حسنات وطاعات مراد ہیں کہ تم ہمیں حسنات سے روکتے تھے سب سے بڑی نیکی ایمان ہے۔ اس لیے ایمان وحسنات سے روکنا مراد ہے۔ یہ تینوں تعبیرات درست ہیں، کیوں کہ راہِ حق سے روکنے کی یہ سب صورتیں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ ﴿ قَالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴾ زیر دستوں اور تابعداروں کے اعتراض کے جواب میں لیڈر اور پیشوا خفت مٹانے کے لیے کہیں گے: تم تو ایمان دار ہی نہ تھے ہم نے تمھیں گمراہ کیسے کیا؟ جب تم پہلے سے بلا دلیل کفر میں پھنسے ہوئے تھے تو تم اسی پر جمے رہے ہمارا اِس میں کوئی قصور نہیں۔ ﴿ وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ ﴾ بلکہ اس کے بعد وہ یہ جھوٹ بھی کہیں گے کہ ہمارا تمھارے اوپر کوئی غلبہ نہ تھا کہ ہم تمھیں حق سے پھیر سکتے۔ حالانکہ ہر دور |