’’لا أسئل الیوم إلا نفسي‘‘’’آج میں اپنے نفس ہی کا سوال کرتا ہوں۔‘‘ ﴿ وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا (10) يُبَصَّرُونَهُمْ ﴾ [المعارج: ۱۱۔ ۱۰] ’’اور کوئی دلی دوست کسی دلی دوست کو نہیں پوچھے گا۔ حالانکہ وہ انھیں دکھائے جا رہے ہوں گے۔‘‘ اور اس آیت میں جو باہم سوال کا ذکر ہے، وہ محاسبے کے بعد جہنم کی طرف جاتے ہوئے ان کی باہم مخاصمت کی صورت میں ہوگا کہ تم نے ہمیں دھوکا دیا اور پھنسایا ہے۔ دوسرے کہیں گے تم نے ہماری بات کیوں مانی، انکار کردیتے۔ ﴿ عَنِ الْيَمِينِ ﴾ عوام اپنے لیڈروں سے، مرید اپنے جھوٹے پیروں سے، مشرکین اپنے شیطان ساتھیوں سے کہیں گے کہ یہ ساری شامت تمھاری وجہ سے ہے، تم ہی ہمارے پاس ’’یمین‘‘ کی راہ سے آتے تھے۔ ’’یمین‘‘ کے مختلف مفہوم ہیں: 1 یمین بمعنی قسم، یعنی تم قسمیں کھا کھا کے ہمیں یقین دلاتے تھے کہ ہم تمھارے خیر خواہ ہیں جو ہم کہتے ہیں یہی صحیح ہے۔ اہلِ عرب اپنے عہد وپیمان کو پختہ کرنے اور قسم کو مضبوط بنانے کے لیے اپنا ہاتھ مخاطب کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے۔ اسی سے یہ قسم کے لیے استعمال ہونے لگا۔ شیطان نے بھی حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کو قسمیں کھا کے دھوکا دیا: ﴿ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ ﴾ [الأعراف: ۲۱] ’’اور اس نے دونوں سے قسم کھا کر کہا کہ بے شک میں تم دونوں کے لیے یقینا خیر خواہوں سے ہوں۔‘‘ 2 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت میں ’’یمین‘‘ سے مراد قوت وسطوت لیتے ہیں کہ تم ہمیں بڑے مضبوط طریقوں سے دھوکا دیتے تھے۔[1] |