Maktaba Wahhabi

109 - 438
’’پھر جب صور میں پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان نہ کوئی رشتے ہوں گے اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔‘‘ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے امام ابن جریر رحمہ اللہ سے اس کے دو جواب نقل کیے ہیں: ایک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا جواب کہ سوال کی نفی نفخہ اولیٰ پر ہے اور باہم سوال کا ذکر نفخہ ثانیہ کے بعد ہے۔ دوسرا جواب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ سوا ل کی نفی سے مراد ہے کہ قیامت کے روز اعلان ہوگا کہ یہ فلاں بن فلاں ہے اس سے اگر کسی نے کوئی حق لینا ہے تو آئے اپنا اس سے حق وصول کرلے، تب عورت چاہے گی کہ میرا حق باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاوند پر ہوتا (تو میں اس سے وصول کرتی جس سے مجھے کوئی فائدہ پہنچتا) اس وقت نہ نسب کا کوئی لحاظ پاس ہوگا نہ ہی وہ اس سے سوال کرے گی۔[1] یعنی میدانِ محشر کی ہول ناکی کو دیکھ کر حساب و کتاب کے وقت کوئی کسی سے سوال نہیں کرے گا اسی مرحلے میں یہ کیفیت ہوگی: ﴿ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (34) وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (35) وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (36) لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ﴾ [عبس: ۳۷۔ ۳۴] ’’جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا۔ اور اپنی ماں اور اپنے باپ (سے)۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ اس دن ان میں سے ہر شخص کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا بنا دے گی۔‘‘ بھاگنے کا سبب یہ خوف ہوسکتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے اپنے کسی حق کا مطالبہ نہ کرلے اور یہ اندیشہ بھی کہ کہیں وہ مجھ سے کوئی نیکی طلب نہ کرلے۔ ہر ایک نفسی نفسی پکارے گا۔ حتی کہ اولو العزم انبیائے کرام بھی کہیں گے:
Flag Counter