﴿وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ (27) قَالُوا إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ (28) قَالُوا بَلْ لَمْ تَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (29) وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طَاغِينَ (30) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۳۰۔ ۲۷] ’’اور ان کے بعض بعض کی طرف متوجہ ہوں گے، ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ کہیں گے بے شک تم ہمارے پاس قسم کی راہ سے آتے تھے۔ وہ کہیں گے بلکہ تم ایمان والے نہ تھے۔ اور ہمارا تم پر کوئی غلبہ نہ تھا، بلکہ تم (خود) حد سے بڑھنے والے لوگ تھے۔‘‘ جب مشرکوں کو جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے پوچھا جائے گا کہ آج تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ دنیا میں تو تم نے آپس میں بڑی امیدیں لگا رکھی تھیں۔ مگر آج کوئی کسی کے کام نہیں آرہا۔ تمھارے جھوٹے سہارے ٹوٹ چکے بلکہ آج تم سب ہمارے سامنے بے بسی کا اعتراف کررہے ہو، جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے کوئی اکڑ فوں نہیں دکھا رہا۔ ندامت کے مارے اب یہ آپس میں تو تکار کریں گے۔ ﴿ يَتَسَاءَلُونَ ﴾ چنانچہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ ﴿ يَتَسَاءَلُونَ ﴾ کا مادہ ’’سأل‘‘ ہے تساؤل باب تفاعل کا مصدر ہے، چنانچہ ﴿ يَتَسَاءَلُونَ ﴾ کے معنی ہیں: وہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ یہاں ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ اس آیت میں باہم ایک دوسرے سے سوال کرنے کا ذکر ہے مگر سورۃ المومنون میں سوال نہ کرنے کا ذکر ہے: ﴿ فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ ﴾ [المؤمنون: ۱۰۱] |