لیے پیش کردے گا۔ کہیں کوئی پیر صاحب یا گروجی یا ہولی فادر واصل بجہنم ہو رہے ہوں گے اور مریدوں میں سے کسی کو یہ فکر نہ ہوگی کہ حضرتِ والا کی توہین نہ ہونے پائے۔ کہیں کوئی لیڈر صاحب کس مپرسی کے عالم میں جہنم کی طرف رواں دواں ہوں گے اور دنیا میں جو لوگ ان کی کبریائی کے جھنڈے اٹھائے پھرتے تھے وہ سب وہاں ان کی طرف سے نگاہیں پھیر لیں گے۔ حد یہ کہ جو عاشق دنیا میں اپنے معشوق پر جان چھڑکتے تھے انھیں بھی اس کے حالِ بد کی کوئی پروا نہ ہوگی۔ اس حالت کا نقشہ کھینچ کر اللہ تعالیٰ دراصل یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہے کہ دنیا میں انسان اور انسان کے جو تعلقات اپنے ربّ سے بغاوت پر مبنی ہیں وہ کس طرح آخرت میں ٹوٹ کر رہ جائیں گے اور یہاں جو لوگ ’’ہمچو ما دیگرے نیست‘‘ کے غرور میں مبتلا ہیں وہاں ان کا تکبر کس طرح خاک میں مل جائے گا۔‘‘[1] ﴿بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ (26) ﴾ ایک دوسرے کی مدد کرنا تو کجا وہ آج مطیع اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیے ہوئے ہوں گے، نہ وہ اللہ سے بچ سکیں گے نہ ہی کہیں بھاگ سکیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے۔ یاد رہے کہ یہ سوال مشرکین سے جہنم کی طرف جاتے ہوئے ہوگا۔ اس کے علاوہ حساب کتاب کے وقت سوالات کا دائرہ اس سے مختلف ہے۔ جہاں ہر نعمت کے حوالے سے سوال ہوگا۔ احادیث مبارکہ میں ان سوالات کی تفصیل موجود ہے۔ بلکہ رافضیوں نے کہا ہے کہ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال ہوگا۔ علامہ آلوسی نے فرمایا ہے سب سے بنیادی سوال لا الٰہ الا اللہ کے بارے میں ہوگا۔ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ کیا، ان کے بھائی خلفائے ثلاثہ کی ولایت بھی اسی کلمے کی سربلندی کے لیے تھی۔ |