ہم ایک دوسرے کے معاون ہیں اور جو ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا منہ کی کھائے گا۔ مگر آج تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کررہے۔ امام ابن جریر ابن ابی حاتم اور ترمذی وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی کو کسی چیز کی طرف بلائے گا وہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا نہ بے وفائی ہوگی نہ جدائی ہو گی۔ اگرچہ آدمی نے آدمی کی طرف بلایا ہو۔ پھر آپ نے سورۃ الصّٰفّٰت کی یہی آیات تلاوت فرمائیں: ﴿وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ (24) مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ (25)﴾[1] یعنی وہ داعی اور وہ معبود جس کی طرف دعوت دی گئی۔ مگر یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام ترمذی نے اسے غریب کہا ہے۔ اس میں بشر مجہول ہے اور لیث بن ابی سلیم بھی ضعیف ہے۔ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے حضرت عثمان بن زائدۃ، جو نہایت ثقہ اور متقی بزرگ گزرے ہیں، سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے: سب سے پہلے انسان سے اس کے ساتھیوں کی بابت پوچھا جائے گا۔ اور ان سے کہا جائے گا آج کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے؟ دنیا میں تو تم کہتے تھے ہم سب ایک دوسرے کے معاون ومددگار ہیں۔[2] سیّد مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’بڑے بڑے ہیکڑ مجرمین کے کس بل نکل چکے ہوں گے اور کسی مزاحمت کے بغیر وہ کان دبائے جہنم کی طرف جا رہے ہوں گے۔ کہیں کوئی ہز میجسٹی دھکے کھا رہے ہوں گے۔ اور درباریوں میں سے کوئی اعلیٰ حضرت کو بچانے کے لیے آگے نہ بڑھے گا۔ کہیں کوئی فاتح عالَم اور کوئی ڈکٹیٹر انتہائی ذلت کے ساتھ چلا جا رہا ہوگا اور اس کا لشکر جرار خود اسے سزا کے |