﴿وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ (24) مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ (25) بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ (26) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۲۶۔ ۲۴] ’’اور انھیں ٹھہراؤ، بے شک یہ سوال کیے جانے والے ہیں۔ کیا ہے تمھیں، تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے؟ بلکہ آج وہ بالکل فرماں بردار ہیں۔‘‘ اس میں مشرکین کی ذلت اور رسوائی کا ایک اور پہلو بیان ہوا ہے کہ جب فرشتے انھیں جہنم کی طرف لے جا رہے ہوں گے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: انھیں ٹھہراؤ، ان سے ایک بات پوچھ لینے دو۔ آج بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہو تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ دنیا میں تو تم اپنے معبودوں کے بارے میں کہتے تھے: ﴿هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ ﴾ [یونس: ۱۸] ’’یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘ آج تم جہنم کنارے پہنچے ہوئے ہو، وہ تمھارے سفارشی کہاں ہیں؟ اور تم تو بڑے یقین سے کہتے تھے: ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى ﴾ [الزمر: ۳] ’’ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں اچھی طرح قریب کرنا۔‘‘ مگر آج قرب کیا، تم تو جہنم کا ایندھن بننے جا رہے ہو۔ تم تو کہتے تھے: ﴿نَحْنُ جَمِيعٌ مُنْتَصِرٌ ﴾ [القمر: ۴۴] ’’ہم ایک جماعت ہیں جو بدلہ لے کر رہنے والے ہیں۔‘‘ |