Maktaba Wahhabi

103 - 438
دی ہے اور اس پر آیت ﴿ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ﴾ [البقرۃ: ۲۴] سے بھی استدلال کیا ہے کہ یہاں بھی ﴿الْحِجَارَةُ﴾ سے مراد پتھر کے بت ہیں۔ مگر اس سے صرف بت مراد لینا صحیح نہیں۔ کیونکہ ’’ما‘‘ جہاں غیر ذوی العقول کے لیے ہے، وہاں یہ عموم کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ بتوں کے علاوہ جنوں، فرشتوں اور دیگر صلحا کی عبادت ہوتی رہی اور ہو رہی ہے، مگر فرشتوں اور جن صلحا نے اس سے برائت کا اظہار کیا وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے۔ اور ﴿الْحِجَارَةُ﴾ سے مراد گندھک ملا پتھر ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود، ابن عباس اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہے اور یہی رائے امام مجاہد اور ابن جریج وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم کی ہے یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن کثیر نے امام رازی رحمہ اللہ کی تردید کی ہے جو ﴿الْحِجَارَةُ﴾ سے مراد بت لیتے ہیں۔ ﴿فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْجَحِيمِ ﴾ ’’فاھدوا‘‘ ہدی سے ہے، یعنی راہنمائی کرنا، بتلانا، دلالت کرنا۔ ’’ہم‘‘ کی ضمیر ظالموں، اُن کے ازواج اور ان کے معبودانِ باطلہ کی طرف ہے۔ ’’ہدی‘‘ یا ہدایت کا لفظ عموماً فائدہ مند راہ بتلانے پر ہوتا ہے اور کبھی یہ شر کی راہ بتلانے پر بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے بشارت کا لفظ عموماً اچھی خبر کے لیے ہوتا ہے مگر کبھی یہ بری خبر کے لیے بھی مستعمل ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾ [آلِ عمران: ۲۱، التوبۃ: ۳۴] ’’سو انھیں ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دے۔‘‘ یا جیسے ’’ائمہ‘‘ کا اطلاق عموماً ائمہ ہدیٰ پر ہوتا ہے مگر کبھی اس کا اطلاق ائمہ ضلالت پر بھی ہوتا ہے، جیسے فرعون اور اس کے حواریوں کے بارے میں فرمایا: ﴿وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنْصَرُونَ ﴾ [القصص: ۴۱]
Flag Counter