الْعِلْمِ بِأَنَّہَا غَیْرُ مُسْتَمِرَّۃٍ فِیہِ، وَأَنَّ ہٰذِہِ الْإِعَادَۃَ لَیْسَ مُسْتَلْزِمَۃً لِّإِثْبَاتِ حَیَاۃٍ مُّزِیلَۃٍ لِّاسْمِ الْمَوْتِ، بَلْ ہِيَ أَنْوَاعُ حَیَاۃٍ بَرْزَخِیَّۃٍ ۔ ’’مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا، بل کہ یہ تو حدیث کے ظاہری معنی کے خلاف ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اللہ تعالیٰ میری روح لوٹا دے گا، اس کا تقاضا کرتا ہے کہ روح سلام کہنے کے بعد لوٹائی جاتی ہے۔ یہ الفاظ تو دلالت نہیں کرتے کہ روح جسم میں ہمیشہ رہے گی۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ بدن کی طرف روح کا لوٹایا جانا اور موت کے بعد جسم کی طرف اس کا واپس آنا اس کے ہمیشہ وہیں رہنے پر دلالت نہیں کرتا، نہ ہی وہ قیامت سے پہلے کسی دوسری زندگی کو مستلزم ہے،جو دنیوی زندگی کی طرح ہو،بل کہ برزخ میں روح کا جسم کی طرف لوٹایا جانا ایک برزخی اعادہ ہے، جو میت سے موت کا نام ختم نہیں کرتا۔ عذاب قبراور اس کی نعمتوں کے بارے میں سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی مشہور طویل حدیث (سنن أبي داوٗد : 4753؛ المستدرک للحاکم : 1/95، وسندہٗ حسنٌ) میں ہے کہ ہرکسی کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے، حالانکہ یہ معلوم ہے کہ وہ روح اس جسم میں ہمیشہ نہیں رہتی، نہ ہی وہ ایسی زندگی کو مستلزم ہے، جو میت سے موت کا نام ختم کر دے، بل کہ وہ تو برزخی زندگی کی ایک قسم ہے۔‘‘ (الصّارم المُنکي في الرّدّ علی السُّبکي : 1/222۔223) اگر روح کے لوٹائے جانے کو دنیوی زندگی شمار کیا جائے تو ہر مسلم و کافر کی روح لوٹائی جاتی ہے۔ کیا اس حیات کو بھی دنیوی سمجھا جائے؟ |