جواز یا استحباب منقول نہیں ، لہٰذا یہ دین نہیں ، بلکہ دین کی خلاف ورزی ہے ۔ بعض شبہات اور ان کا ازالہ : شبہہ نمبر 1 : سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے : ’’ آپ رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ کہتے سنا، تو یہی الفاظ کہے اورانگشت شہادت کے پورے نچلی جانب سے چوم کر آنکھوں سے لگائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو ایسا کرے گا، جیسا میرے پیارے نے کیا ہے، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔‘‘ (المَقاصد الحَسَنۃ للسَّخاوي، ص 384) 1. بے سند روایت ہے ، صحت کے مدعی پر سند پیش کرنا لازم ہے۔ 2. حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لَا یَصِحُّ ۔ ’’یہ روایت ثابت نہیں ہے ۔‘‘ بعض حلقوں کی طرف سے یہ وضاحت پیش کی جاتی ہے کہ درجہ صحت کی نفی سے درجہ حسن کی نفی نہیں ہوتی، تو گزارش ہے کہ اس کی تو سند ہی موجود نہیں ، حسن یا صحیح کیسے؟ شبہہ نمبر 2 : سیدنا خضر علیہ السلام نے فرمایا: جو مؤذن سے أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے الفاظ سن کر مَرْحَبًا بِحَبِیْبِي وَقُرَّۃِ عَیْنِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کہے، پھر |